muslim in india

مسلمان: ایک قوم، ایک ملک، اور ایک مسلسل آزمائش

علی کے گھر کا صحن ہمیشہ کی طرح پُرسکون تھا۔ بچے کھیل رہے تھے، بیوی چائے بنا رہی تھی، اور وہ خود لکڑی کی ایک پرانی کرسی پر بیٹھا، نیم غروب سورج کو تک رہا تھا۔ لیکن پھر باہر ایک شور بلند ہوا۔ چیخ و پکار، بھاگ دوڑ، گلی کے کونے پر کچھ نوجوانوں کی آوازیں۔ علی نے پہلے پہل نظر انداز کرنے کی کوشش کی، مگر چند لمحوں بعد ٹیلی ویژن سے آنے والی خبروں نے اس کے شبہات کی تصدیق کر دی۔ ایک اور مسلم بستی جلائی جا رہی تھی۔ ایک اور دن، ایک اور فساد، ایک اور خاندان بے گھر۔

مگر علی حیران نہیں تھا۔ وہ خوفزدہ بھی نہیں تھا۔ کیا یہ بے حسی تھی؟ نہیں، یہ عادت تھی۔

کبھی سوچا ہے، کیسا محسوس ہوتا ہے جب آپ کو روز قتل ہونے کی خبر سننے کی عادت ہو جائے؟ جب آپ کے بھائیوں کے گھروں کو جلانے کی خبر میں کوئی نیاپن نہ رہے؟ جب ہر نئی صبح کے ساتھ آپ کو یہی خدشہ لاحق ہو کہ آج کس شہر میں مسلمانوں کے خون سے زمین رنگین ہوگی؟

یہ ہندوستان ہے۔ وہی ہندوستان۔ جہاں مسلمان ہونا اب صرف ایک مذہبی شناخت نہیں، بلکہ ایک سزا بن چکا ہے۔ جہاں مسلمان کا نام آتے ہی غدار، درانداز اور دہشت گرد جیسے الفاظ اس کے ساتھ جوڑ دیے جاتے ہیں۔

یہ ص، جہاں جمہوریت کی دیواروں پر اب ہندوتوا کے نعرے کندہ ہو چکے ہیںرف فسادات نہیں، یہ ایک منصوبہ بند نسل کشی ہے۔

آج اگر مسلمانوں کی بستی جل رہی ہے، کل ان کے کاروبار بند ہوں گے، پھر ان کی نوکریاں چھینی جائیں گی، پھر ان کے بچوں کو اسکولوں سے نکالا جائے گا، اور آخر میں ان سے ہندوستانی ہونے کا حق بھی چھین لیا جائے گا۔ تاریخ کو دہرایا جا رہا ہے، مگر اس بار کہانی کہیں زیادہ خوفناک ہے۔

کیا کوئی پوچھے گا کہ آخر مسلمان کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں؟ کیا کوئی سوال کرے گا کہ آخر ان کے گھروں کو ملبے میں بدلنے والوں کو کھلی چھوٹ کیوں دی گئی ہے؟ کیا کوئی حکومت سے پوچھے گا کہ اگر یہ ملک سب کا ہے تو مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی سازش کیوں ہو رہی ہے؟

یا پھر ہم سب انتظار کر رہے ہیں اس دن کا جب کسی گلی میں آخری مسلمان کا گھر جلے گا، اور ہم ٹیلی ویژن پر وہ خبر دیکھ کر شانے اُچکا کر آگے بڑھ جائیں گے؟


رات کے کسی پہر علی کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ صحن میں بچھی چارپائی پر اس کا بڑا بیٹا خاموش لیٹا ہوا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں کوئی چمک نہیں تھی، کوئی سوال نہیں تھا۔ علی نے پاس جا کر اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔

"ابو، ہم کہاں جائیں گے؟” بیٹے نے اچانک سوال کیا۔

علی نے کچھ لمحے کے لیے خاموشی اختیار کی۔ وہ کیا جواب دیتا؟ کہنے کو تو وہیں پیدا ہوا، اس کے والدین نے یہیں زندگی گزاری، ان کے آباؤ اجداد کی قبریں اسی زمین میں تھیں۔ لیکن کیا یہ ملک اب بھی ان کا تھا؟

"یہی ہمارا گھر ہے، بیٹا۔ ہم کہیں نہیں جا رہے۔” علی نے کہا، مگر اس کی آواز میں خود اعتمادی کی کمی تھی۔

لاؤڈ اسپیکر پر کوئی بھجن بجنے لگا تھا۔ رات کے سناٹے میں اس کے الفاظ گونج رہے تھے، جیسے جان بوجھ کر سنانے کے لیے۔ جیسے کسی بے زبان کو ڈرانے کی ایک اور کوشش ہو۔

اگلی صبح علی جب بازار گیا تو اُس نے دیکھا کہ مسلمانوں کی دکانیں بند پڑی تھیں۔ کچھ دکانوں پر زعفرانی جھنڈے لگا دیے گئے تھے۔ کچھ کے شٹر توڑ دیے گئے تھے۔ ایک بوڑھا دکاندار اپنی خالی دکان کے باہر بیٹھا تھا، جیسے کسی معجزے کا انتظار کر رہا ہو۔

علی نے اُسے تسلی دینے کی کوشش کی، مگر وہ بس ایک ہی جملہ بُڑبُڑا رہا تھا:

"ہم بے گھر نہیں ہیں، پھر بھی ہمیں نکالا جا رہا ہے… یہ ہمارا ملک تھا، مگر اب ہمیں غیر محسوس کر دیا گیا ہے…”


اُسی شام علی نے اپنے گھر کے دروازے پر ایک اور عجیب منظر دیکھا۔ ایک انجان چہرہ، ہاتھ میں ایک خط لیے کھڑا تھا۔ علی نے خط کھولا، اس میں صرف چند الفاظ لکھے تھے:

"یہاں سے نکل جاؤ، یا انجام کے لیے تیار ہو جاؤ۔”

علی کے ہاتھ کانپنے لگے۔ اس نے اپنے بچوں کو دیکھا، اپنی بیوی کو دیکھا، اور پھر گھر کی دیواروں کو جیسے وہ آخری بار انہیں یادداشت میں محفوظ کر رہا ہو۔

کیا وہ اب بھی اپنے بیٹے کو کہہ سکتا تھا کہ ہم کہیں نہیں جا رہے؟ یا یہ وہ لمحہ تھا جب اسے قبول کرنا تھا کہ وہ واقعی اس سرزمین پر ایک اجنبی بنا دیا گیا ہے؟

وہ دروازے کی دہلیز پر کھڑا تھا، ایک فیصلے کے کنارے پر۔

رہنا تھا یا جانا تھا؟


یہ صرف علی کی کہانی نہیں ہے۔ یہ ہر اُس مسلمان کی کہانی ہے جو آج ہندوستان میں خود کو بے یار و مددگار محسوس کر رہا ہے۔ میڈیا، جو کبھی سچائی کی آواز ہوا کرتا تھا، اب ایک ایسا ہتھیار بن چکا ہے جو مسلسل زہر گھول رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور مرکزی میڈیا نے ایک ایسا ماحولیاتی نظام (ایکو چیمبر) بنا دیا ہے جہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا، جعلی خبریں، اور خوف و دہشت کو پھیلایا جا رہا ہے۔

لیکن کیا مسلمان صرف اس خوف میں جیتے رہیں گے؟ کیا وہ اپنی شناخت کھو دیں گے؟

نہیں! اس کا واحد جواب مزاحمت ہے۔ مسلمانوں کو اپنے حق کے لیے سڑکوں پر لڑنا ہوگا، عدالتوں میں اپنی آواز بلند کرنی ہوگی، اسکولوں اور کالجوں میں علم کے ذریعے خود کو مضبوط بنانا ہوگا۔ ہر میدان میں—چاہے سیاست ہو، تعلیم ہو، یا معیشت—انہیں اپنی موجودگی منوانی ہوگی۔ یہ ایک طویل جدوجہد ہے، مگر اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اگر انہیں اپنے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے، تو انہیں اپنے حقوق کے لیے ہر جگہ، ہر محاذ پر کھڑا ہونا ہوگا۔

یہ ملک ان کا بھی ہے۔ اور کوئی انہیں اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔

مصنف

  • abdul moid

    عبد المعید مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ 2016 سے 2019 تک وگنانز یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کی تحقیق کے اہم موضوعات بھارتی سیاست اور صنفی مطالعات ہیں۔

اوپر تک سکرول کریں۔