بھارت، جو اپنی جمہوریت، تنوع، اور سیکولر ازم کے اصولوں پر فخر کرتا ہے، آج اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے لیے ایک نازک اور مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ بانیانِ بھارت نے ایک ایسا ملک تشکیل دینے کا خواب دیکھا تھا جہاں ہر مذہب، ہر عقیدہ، اور ہر طبقہ برابر کے حقوق رکھتا ہو، مگر آج کی حقیقت اس خواب سے کہیں زیادہ تلخ اور پیچیدہ ہو چکی ہے۔
مسلمانوں کے خلاف بڑھتا ہوا تعصب
آزادی کے بعد بھارتی مسلمان کئی معاشی، سماجی اور تعلیمی چیلنجز سے نبرد آزما رہے، لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں ان کے خلاف تعصب اور امتیازی سلوک میں خوفناک اضافہ ہوا ہے۔ ہجومی تشدد (ماب لنچنگ)، یکطرفہ قوانین، اور معاشرتی بائیکاٹ جیسی کارروائیاں اب معمول بنتی جا رہی ہیں۔ گائے کے تحفظ کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کا قتل، لو جہاد کے نام پر ان کی ازدواجی زندگیوں میں مداخلت، اور مدارس و مسلم تعلیمی اداروں کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھنا ایک عام رجحان بن چکا ہے۔
سیاسی حاشیہ برداری اور حکومتی پالیسیوں کا اثر
مسلمانوں کو صرف سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ پالیسی سطح پر بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ سیاسی منظرنامے میں ان کی موجودگی تیزی سے ختم ہو رہی ہے، اور پارلیمنٹ و اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی شرمناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ حکومت کی پالیسیاں جیسے شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور قومی رجسٹر برائے شہریت (NRC) درحقیقت مسلمانوں کے وجود اور شناخت پر براہِ راست حملے ہیں۔ یہ قوانین نہ صرف انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش ہیں بلکہ ان کے بنیادی حقوق کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
تعلیم اور معاشی پس ماندگی
مسلمان تعلیمی میدان میں پہلے ہی پیچھے تھے، مگر اب حالات مزید بدتر ہو رہے ہیں۔ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں مسلم طلبہ کو امتیازی سلوک اور نفرت انگیز رویوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حجاب پہننے والی لڑکیوں پر پابندی جیسی مثالیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ تعلیم حاصل کرنا بھی مسلمانوں کے لیے ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ روزگار کے مواقع میں بھی مسلمانوں کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ مزید غربت اور پسماندگی کا شکار ہو رہے ہیں۔
میڈیا اور مسلمانوں کی منفی تصویر کشی
بھارتی میڈیا جو کسی زمانے میں عوام کی آواز تھا، آج مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا اسلاموفوبیا کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے، اور مسلمانوں کو دہشت گرد، ملک دشمن، اور شدت پسند بنا کر پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس نفرت انگیز میڈیا بیانیے نے عوامی ذہنیت کو بھی مسخ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں عام ہندو مسلم بھائی چارہ بھی تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔
مسلمانوں کا ردِعمل اور مستقبل کی راہیں
ایسی سنگین صورتحال میں بھارتی مسلمانوں کے پاس دو راستے ہیں: یا تو وہ خاموش تماشائی بنے رہیں، یا پھر اپنی تعلیمی، سماجی، اور معاشی ترقی کے لیے منظم جدوجہد کریں۔ حالات جتنے بھی خراب ہوں، مایوسی کا شکار ہونا کوئی حل نہیں۔ مسلمانوں کو اپنی نئی نسل کو تعلیم، ٹیکنالوجی، اور معیشت میں مضبوط بنانا ہوگا تاکہ وہ ایک باعزت زندگی گزار سکیں اور اس امتیازی سلوک کے خلاف قانونی، جمہوری اور علمی بنیادوں پر لڑ سکیں۔
بھارت کے بانیوں نے ایک ایسا ملک بنایا تھا جہاں سب برابر ہوں، مگر آج کا بھارت مسلمانوں کے لیے آزمائش کا میدان بن چکا ہے۔ اگر اس تعصب اور نفرت کی آگ کو نہ روکا گیا تو یہ پورے ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔ بھارت کی ترقی صرف اسی وقت ممکن ہے جب اس کی اقلیتیں محفوظ اور باوقار زندگی گزاریں، ورنہ یہ تقسیم اور عدم استحکام کا شکار ہوتا چلا جائے گا۔



