hate speech by kabtakurdu

نفرت کا طوفان : بقا کی جنگ یا سیاسی کھیل؟

یہ 2024 کا بھارت ہے۔ شہر کے کسی کونے میں ایک سیاستدان کی تقریر گونج رہی ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ مسلمان "ملک کے لیے خطرہ” ہیں۔ لوگ تالی بجاتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں۔ لیکن کہیں دور، ایک ماں اپنے بچے کو سینے سے لگا کر سہمے ہوئے سوچ رہی ہے: "کل میرا گھر محفوظ ہوگا یا نہیں؟”

یہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے، بلکہ ایک بڑی مہم کا حصہ ہے۔ ایسی تقاریر اکثر سیاسی فائدے کے لیے کی جاتی ہیں، اور تاریخ گواہ ہے کہ جب نفرت کو ہوا دی جاتی ہے تو اس کے نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔ واشنگٹن میں قائم "Boom Fact Check” کے مطابق، 2024 میں وائرل ہونے والی 60 فیصد جھوٹی خبریں اقلیتوں کو نشانہ بناتی تھیں۔

یہ پروپیگنڈا صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں۔ گزشتہ برس 2023 میں ہریانہ کے نوح میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران، سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کے ذریعے ایک منظم سازش کے تحت مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح 2022 میں دہلی کے جہانگیر پوری میں ہونے والے تشدد میں بھی سوشل میڈیا پر چلنے والے اشتعال انگیز بیانات کا کلیدی کردار تھا۔

بھارت کی موجودہ صورتحال ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ کیا ہم نفرت کی سیاست کو قبول کر لیں گے یا قومی یکجہتی کے لیے قدم بڑھائیں گے؟ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ نفرت کبھی بھی کسی قوم کو ترقی کی راہ پر نہیں ڈالتی بلکہ اسے بربادی کے دہانے پر پہنچا دیتی ہے۔ 1947 کی تقسیم، 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہونے والے فسادات، اور 2002 کے گجرات فسادات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ فرقہ واریت کا نتیجہ ہمیشہ تباہ کن ہی رہا ہے۔

ہمیں خود سے سوال کرنا ہوگا: کیا ہمارا بھارت، جو "وَسُدھَیو کُٹُمبکم”کی تعلیم دیتا تھا، آج مذہبی اور سماجی تقسیم کے اندھیروں میں ڈوب رہا ہے؟ کیا ہم اپنے بچوں کے لیے ایک ایسا معاشرہ چھوڑ کر جائیں گے جہاں خوف اور عدم تحفظ عام ہو؟ یا ہم ایک ایسے بھارت کی تعمیر کریں گے جو سب کے لیے مساوی ہو، جہاں ہر شہری اپنے عقیدے اور شناخت کے ساتھ آزاد اور محفوظ ہو؟

یہ وقت ہے کہ ہم جاگیں۔ اگر ہم آج خاموش رہے، تو کل ہمیں اس خاموشی کی قیمت چکانی پڑے گی۔ بھارت کی روح اس کے تنوع میں ہے، اور اگر ہم نے اس تنوع کو کھو دیا، تو ہم نے اپنا ملک کھو دیا۔

مصنف

اوپر تک سکرول کریں۔